عشرہ ذوالحجہ (Ashara Zilhajj)
عشرہ ذوالحجہ
ذوالحجہ کے ابتدائی دس ایام کےفضائل مں بخاری شریف کی مذکورہ حدیث بہت مشہور اور بڑی مؤثر ہے
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللہُ عَنْھُمَا قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا مِنْ اَیَّامٍ اَلْعَمَلُ الصَّالِحُ فِیْھِنَّ اَحَبُّ اِلَی اللہِ مِنْ ھٰذِہِ الْاَیَّامِ الْعَشَرَۃِ قَالُوْا یَارَسُوْلَ اللہِ وَلَا الْجِھَادُ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ قَالَ وَلَا الْجِھَادُ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ اِلَّا رَجُلٌ خَرَجَ بِنَفْسِہٖ وَمَالِہٖ فَلَمْ یَرْجِعْ مِنْ ذٰلِکَ بِشَیْءٍ ۔ رواہ البخاری
(مشکاۃالمصابیح،کتاب الصلاۃ،باب فی الاضحیۃ،الحدیث:۱۴۶۰،ج۱،ص۲۸۱)
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا :کسی دنوں میں عمل صالح اللہ تعالیٰ کو اتنازیادہ پسند نہیں جتنے کہ ان دس دنوں(عشرہ ذوالحجہ)میں ۔ صحابہ علیہم الرضوان نے کہا کہ کیا جہاد فی سبیل اللہ بھی اس سے زیادہ اللہ عزوجل کو پسند نہیں؟ توفرمایا کہ ہاں!جہاد فی سبیل اللہ بھی ان دنوں میں عمل صالح سے زیادہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک محبو ب نہیں، ہاں لیکن وہ مرد جو اپنی جان اور مال لے کر جہاد میں نکلا اور جان و مال میں سے کوئی بھی چیز واپس لے کر نہیں لوٹا ۔ اس حدیث کو بخاری نے روایت کیاہے۔
(تشریحات و فوائد)
مطلب یہ ہے کہ سال بھر کے تمام دنوں میں ذوالحجہ کے دس دنوں میں عمل صالح جتنا اللہ تعالیٰ کو پسند ہے سال بھر کے تمام دنوں میں کوئی عمل اتنا پسند نہیں یہ سن کرصحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کیا کہ یارسول اللہ!عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کیاخدا عزوجل کی راہ میں جہادکرنابھی ان دنوں میں عمل صالح سے زیادہ خدا عزوجل کو پسند نہیں؟ توکیا ارشاد فرمایا کہ ہاں جہاد بھی دوسرے دنوں میں کرنا ان دس دنوں میں عمل صالح کرنے سے بڑھ کر اللہ عزوجل کو پسند نہیں ۔ہاں اگر کوئی مجاہد اپنی جان و مال لے کر جہاد کے لیے نکلااور پھر خود شہید ہوگیا اور اُس کا مال کفار نے لوٹ لیا کہ وہ اپنے گھر جان و مال میں سے کچھ لے کر نہیں لوٹا تو بے شک اس مجاہد کا جہاد فی سبیل اللہ تو عشرہ ذوالحجہ میں عمل صالح کرنے سے افضل ہے ورنہ کسی اور مجاہد کا جہاد عشرہ ذوالحجہ میں عمل صالح کرنے سے بہتر اور بڑھ کر نہیں ہوسکتا۔
علمائے کرام کا اس بارے میں اختلاف ہے کہ ذوالحجہ کے دس دن افضل ہیں یا رمضان شریف کے آخری دس دن زیادہ افضل ہیں، چنانچہ عالموں نے عشرہ ذوالحجہ کو افضل مانااورکچھ اہلِ علم نے رمضان شریف کے آخری عشرہ کوافضل بتایاہے لیکن حضرت شیخ محقق عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے تحریر فرمایا کہ
وَالْمُخْتَارُ اَنَّ اَیَّامَ ھٰذِہٖ الْعَشَرَۃِ اَفْضَلُ لِوَجُوْدِ یَوْمِ عَرَفَۃَ فِیْھَا وَلَیَالِیْ عَشَرَۃَ رَمَضَانَ اَفْضَلُ لِوُجُوْدِ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ فِیْھَا۔
اور مختار مذہب یہ ہے کہ عشرہ ذوالحجہ کے دن رمضان کے آخری عشرہ کے دنوں سے افضل ہیں کیونکہ انہی دنوں میں یوم عرفہ بھی ہے اور رمضان کے آخری عشرہ کی راتیں ذوالحجہ کے عشرہ سے افضل ہیں کیوں کہ انہی راتوں میں شب قدر ہے۔ بہرحال عشرہ ذوالحجہ اعمال صالحہ کرنے کابہترین وقت ہے اس لیے ان دنوں میں عمل صالح کرناجنت میں لے جانے والے اعمال میں سے ہے اورخداوند قدوس کو بہت زیادہ محبوب ہے، چنانچہ ایک حدیث میں یہ بھی آیا ہے کہ
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ذوالحجہ کے دس دنوں میں عبادت کرنا جس قدر اللہ تعالیٰ کو پسند ہے اور کسی دنوں میں عبادت کرنا اس قدر پسند نہیں۔ عشرہ ذوالحجہ کے ہر دن کا روزہ ایک سال کے روزے کے برابر ہے اور عشرہ ذوالحجہ کی ہر رات کا قیام شبِ قدر کے قیام کے برابر ہے۔
اقتباس: بہشت کی کنجیاں
مصنف: علامہ عبد المصطفٰے اعظمی رحمۃاللہ علیہ
MashaALLAH. bohat zabardast. kafi maloomat faraham ki gai he is iqtibas me. ALLAH ilm o amal me taraqqiyan ata farmae or tamam nek kawisho ko qabool farmae.
Ameen.