Reform Among Muslims
افْضَلُ الْعِبَادَۃِاِصْلاحُ بَیْنَ الْمُسْلِمِیْن
ترجمہ۔ بے شک اہل ایمان بھائی بھائی ہیں پس صلح کرا دو اپنے دو بھائیوں کے درمیان۔اور ڈرتے رہاکرواللہ سے تاکہ تم پر رحم فرمایا جائے ۔اس آیت مبارکہ میں باہمی محبت وپیار اور الفت واثار کے جذبات کو بیدار کرنے کے لئے فرمایا جارہا ہےکہ اہل ایمان تو سگے بھائی ہیں۔ان کا نفع اورنقصان،ان کی خوشی اورغمی،انکی فتح اور شکست سب ایک ہیں۔یہ تھوڑی سی رنجش جو پیدا ہوگیٔ بلکل عارضی نوعیت کی ہے۔مسلمانوں پر فرض ہے کہ مداخلت کرکے ان کے درمیان صلح کرادیں تاکہ وہ پہلے کی طرح پھر شیرو شکر ہوجائیں ۔اخَوَیْکُمْ کے لفظ میں کیا لطف ہے کہ یہ آپس میں لڑنے والے ایک دوسرے کے بھائی ہیں اورتمہارے بھی بھا ئی ہیں اجنبیت اور بے گانگی کا نام ونشان تک نہیں،اس لیے تم بے تعلق نہ بنے رہواور ان کا تماشانہ دیکھتے رہوفوری مداخلت کرو اوران میں صلح صفائی کرادو۔جب دوطاقت ورگروہوں کے دست وگریبان ہونے کاوقت تھااس وقت بھی حکم دیا کہ ان میں صلح کرادو۔یہاں جب دو فرد آپس میں گتھم گتھا ہیں تو بھی حکم دیا کہ ان میں صلح کرادو۔لیکن پہلے صلح کے بعد واتقوااللہ نہیں فرمایاگیا اوریہاں امرِصلح کےبعد وَاتَّقُوْا اللہ َ کا اضافہ کیاگیاکیونکہ جب فتنہ عام ہو توہرشخص کویہ اندیشہ ہوتا ہے کہ کہیں میں بھی اس کے شعلوں کی لپیٹ میں نہ آجاؤں۔اخوت کاجذبہ نہ بھی ہو توانسان اپنی سلامتی کےلیے ہی اس آگ کوبجھانے کے درپے ہوجاتا،لیکن جب معاملہ صرف دوآدمیوں تک محدودہو تواس کواپنے زد میں آنے کا خدشہ نہیں ہوتا اس لیے ان حالات میں لوگ عام طورپر بے پروائی کرتے ہیں اورمصالحت کےلیے کوشش نہیں کرتے لیکن اللہ تعالی ٰ کے نزدیک جس طرح مسلمانوں کااجتماعی امن وسکون اہم اسی طرح چندافرادکی خوشی اورسلامتی بھی ازحدعزیز ہے۔اس لیے یہاں اَصْلِحُوْا کے حکم پر واتَّقُوْا اللہَ کا اضافہ بھی کر دیا۔یعنی خدا سے ڈرو اور ان دو بھائیوں کے درمیان صلح صفائی کرا دوتاکہ ان کو بھی امن وامان نصیب ہو اور ان کے گھروں میں بھی آسودگی حاصل ہو۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت کےتم اسی وقت مستحق ہوسکتے ہو جب امتِ مسلمہ انفرادی اوراجتماعی سطح پرایک دوسرے سے محبت وپیار کامظاہرہ کرے۔ایسی دل نشینی،ایسی شیرینی،ایسی مٹھاس صرف اللہ تعالیٰ کے کلام میں ہی پائی جاسکتی ہے،قرآن کایہ وہ اعجاز ہےجس نے فصحائے عرب کودَم بخودکردیاتھا۔یہاں صاحب جوامع الکلمﷺکا ارشاد گرامی بھی سماعت فرمائیے:عن ابی الدرداء قال قال رسول اللہﷺ الا اُخبِرُکُمْ بِاَفْضَلِ مِنْ دَرِجَۃِ الصِّیَامِ والصَّلَاۃٖ والصَّدَقَۃِ،قَالُوْا بلیٰ یَارَ سُوْلَ اللہِ قَالَ اصْلَاحُ ذَاتِ الْبَیْنِ وفَسَادُ ذَاتِ البَیْنِ الْحَالِقَہ۔ترجمہ حضرت ابودرداء سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایاکیا میں تمہیں ایسے عمل پرآگاہ نہ کروں جس کادرجہ روزے،نماز اورصدقہ سے افضل ہے۔صحابہ کرام نے عرض کیا کہ یارسول اللہﷺضرورمہربانی فرمائیے۔فرمایا دوآدمیوں کے درمیان صلح کرادینا۔ساتھ ہی بتادیا کہ دوآدمیوں کے درمیان فساد کرانا ایمان کو مونڈکر رکھ دیتا ہے۔ باہمی جنگ وجدال سے کوئی فریق دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہوجاتا۔بخاری شریف میں موجود ہے کہ ایک روز حضورﷺنے خطبہ ارشاد فرمایا،اس وقت منبر پرحضرت حسنبھی موجود تھے۔حضورﷺکبھی ان کی طرف دیکھتے اورکبھی لوگوں کی طرف متوجہ ہوتے۔پھرفرمایا انَّ اِبْنِی ھٰذا سیِّدٌ ولَعَلَّ اللہَ تَعَالیٰ انْ یُصْلِحَ بَیْنَ فِئِتَیۡنِ عَظِیْمَتَیْنِ منَ الْمُسْلِمِیْنَ۔ترجمہ۔میرایہ بیٹاسردار ہے۔اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ سے مسلمانوں کے دوبڑے گروہوں میں صلح کرادیگا۔حضورﷺکی یہ پیشن گوئی پوری ہوئی اور آپ کے زمانۂ خلافت میں حضرت امیر معاویہکے ساتھ جو جنگ کاسلسلہ عرصہ سے جاری تھاوہ ختم ہوگیا اورمسلمانوں کے دونوں گروہوں میں صلح ہوگئی۔حضرت امیرمعاویہاوران کی جماعت کوبھی حضورﷺنے مسلمان قراردیا۔حضرت سیّدناعلی کرم اللہ وجہہ سے پوچھاگیاکہ جن لوگوں نے آپ سے جُمَلْ اور صِفِّیْن کی جنگیں لڑی ہیں کیاوہ مشرک ہوگئے؟آپ نے فرمایا مِنَ الشِّرْکِ فَرُّوا۔ہرگزنہیں!وہ توشرک سے بھاگ کرآئےتھے۔پھرکہاگیا کیاوہ منافق ہوگئے؟فرمایاہرگز نہیں !منافق تو وہ ہیں جواللہ تعالیٰ کاذکر بہت کم کرتے ہیں۔(اوریہ لوگ توذکرالٰہی دن رات کرتے تھے)پھرپوچھاگیااگروہ مشرک اورمنافق نہیں توکیا ہیں؟امیرالمؤمنین نے فرمایا۔اِخۡوَانُنَابَغَوْاعَلَیْنَا۔یہ ہمارے اسلامی بھائی ہیں،لیکن انہوں نےہمارے خلاف بغاوت کی ہے۔ (حضرت علی کرّم اللہ وجہہ الکریم کی اس بات سے ان لوگوں کودرس اور عبرت حاصل کرنی چاہیے جو لوگ حضرت امیر معاویہ کے بارے میں غلط عقیدہ رکھتے ہیں اور بُرابھلا کہتے ہیں)۔قرآن کریم میں بے شمار آیتیں ہیں اور احضورﷺکے ان گنت ارشادات ہیں جن میں مسلمانوں کومتحدرہنے،آپس میں محبت کرنے اور ایک دوسرے کا احترام اورحقوق کاپاس رکھنےکے تاکیدی احکامات ہیں اورایسی باتوں کوایمان اور اسلام کے منافی قراردیاگیاہے جن کے باعث آپس میں نفرت اورعداوت پیداہوتی ہے۔چنداحادیث پاک ملاحظہ ہوں،(1)اَلمُسْلِمُ اَخّوْالْمُسْلِم لا یظْلِمُہ ولایُسْلِمْہُ۔حضورﷺ نے فرمایا کہ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے۔نہ خوداس پرظلم کرتاہے اورنہ اسے بے یارومددگارکسی ظالم کے حوالے کردیتا ہے۔(2)مَثَلُ الْمُؤْمِنِیْنَ فِیْ تَوَادِّھِمْ وَتَرَاحُمِھِمْ وتَوَاصُلِھِمْ کَمَثَلِ الْجَسَدِ الْوَاحِدِاِذَا اشْتَکٰی مِنْہُ عُضْوٌ تَدَاعَیٰ لَہُ سَائِرُ الْجَسَدِ بِالْحُمَّی والسَّھر۔ترجمہ۔مسلمانوں کی مثال ایک دوسرے سے محبت کرنے میں،ایک دوسرے پررحم کرنے میں، ایک دوسرے کےساتھ صلہ رحمی کرنے میں ایسی ہے جیسےایک جسم ہو۔جب اسکاکوئی عضو بیمارپڑجائے توساراجسم بخار میں مبتلاہوجاتا ہے اوربیداررہتاہے۔مسلمانوں کوتمام ایسی باتوں سے سختی سے روکا جائے جن کے باعث اسلامی معاشرہ کا امن وسکون بربادہوتاہے،محبت وپیار کے رشتے ٹوٹ جاتے ہیں اورخون خرابہ شروع ہوجاتا ہے ۔وہ یہ ہے۔1 ؎ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔یَآاَیُّھَاالَّذِیْنَ آمَنُوا لَایسَخَرقَوْ مٌ مِّنْ قَوْمٍ ۔ترجمہ۔اے ایمان والوں !نہ تنسخراُڑایاکرے مردوں کی ایک جماعت دوسری جماعت کا۔زبان سے مذاق کرنا۔نقلیں اتارکراس کامنْہ چِڑانا۔اس کے لباس یارفتاروگفتار پر ہنسناسب ممنوع ہیں۔ 2؎ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔وَلَاتَلْمِزُوْا اَنْفُسَکُمْ۔ترجمہ۔اور نہ عیب لگاؤایک دوسرے پر۔لفظ لمزکی تحقیق کرتے ہوے علامہ ابن منظور لکھتے ہیں۔الْلَمْزُ: الْعَیْبُ فِیْ الْوَجْہِ،والْاَصْلُ الْاِشَارَۃ بِالْعَیْنِ والرَّأسِ والشِّفَۃِ معَ کَلَامٍ خَفِیٍّ۔ترجمہ۔کسی کے منْہ پر اس کی عیب جوئی کرنے کو اللمز کہتے ہیں۔اصل میں آنکھ،سرکے اِشارے یازِیرِلب آہستہ سے کسی کی عیب چینی کی جائے۔ 3؎ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ولَا تَنَابَزُوْابِالْاَلْقَابِ۔اورنہ بُرے القاب سے کسی کو بُلاؤ۔لفظ تَنَابَزُوْاکی تشریح کرتے ہوئے علامہ ابن منظور لکھتے ہیں۔النَّبْزُ:الْلَقَبُ۔التَّنَابُزُ:التَّداعِیْ بِالْاَلْقَابِ وھُوَیُکْثِرُ فیْمَا کَانَ ذَمَّاً۔ترجمہ۔یعنی کسی کو لقب سے ملقب کرنے کو لغت میں نَبَزْکہتے ہیں لیکن عمومًااس کااستعمال اس لقب کے لئےہوتا ہے جس میں کسی کی مذمت ہواور وہ شخص نا پسند کرے۔ 4؎اللہ تعالیٰ فرماتا ہےیَآاَیُّھَاالَّذِیْنَ آمّنُوْااجْتَنِبُوْا کثِیْراً مِّنَ الظَّنِّ۔ ترجمہ۔اے ایمان والو!دوررہاکروبکثرت بدگمانیوں سے ۔علمائے کرام نے ظن کی متعددقسمیں ذکر کی ہیں۔واجب،مستحب،مباح،ممنوع 1؎ اللہ تعالیٰ کے ساتھ حسنِ ظن کرنا واجب ہے 2؎ مؤمن کے ساتھ جس کاظاہری حال اچھاہوحُسنِ ظن کرنا مستحب ہے۔3؎ ایسا شخص جس کے احوال مشکوک ہوں اس کے متعلق سوءِ ظن کرنا مباح ہے۔ 5؎اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔وَلاتَجَسَّسُوْا۔ترجمہ۔اورنہ جاسوسی کیاکرو۔جب کسی پر تہمت لگتی ہے تو طبیعت چاہتی ہے اس کاسراغ لگایا جائے اورصحیح حالات پر آگاہی حاصل کی جائے۔ 6؎اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔وَلَا یَغْتَبْ بَعْضُکُمْ بَعْضاً،ترجمہ۔اورایک دوسرے کی غیبت بھی نہ کیاکرو۔غیبت کی تعریف خُود زبانِ رِسالتﷺنے بیان فرمائی ہے۔ایک دن حضورﷺ نے دریافت کیا۔اَتَدَرُونَ ماالْغِیْبَۃُ قَالُوا اللہُ ورَسُوْلُہُ اَعْلَمْ۔قَالَ ذِکْرُکَ اخَاکَ بِمَایَکْرَہُ۔کیاتم جانتے ہوغیبت کیاہے؟صحابہ نے عرض کیا اللہ ا ور اس کارسول ہی بہتر جانتے ہیں۔حضور ﷺنے فرمایا۔اپنے بھائی کاایسا ذکر جسے وہ ناپسند کرے۔عرض کی گئی اگروہ بات اس میں پائی جاتی ہوتوبھی اس کاذکرغیبت ہوگی ۔فرمایااگر وہ اس میں پائی جاتی ہے اور تُو اس کاذکرکرے تو تُو نے غیبت کی۔اوراگرایسی بات کا ذکر کرے جواس میں نہیں پائی جاتی تو تُو نے اس پر بُہتان باندھا۔حضرت حسن بصری سے مروی ہے ۔غیبت کا کفّارہ یہ ہے کہ جس کی غیبت تم نے کی ہے اس کے لیے بکثرت مغفرت کی دُعا مانگو۔(3)المُؤْمِنُ لِلْمُؤْمِنِ کالْبُنْیَانِ یَشُدُّ بَعْضَہ بعْضاً۔ایک مؤمن دوسرےمؤمن کے لیے دیوار کی مانند ہے جس کی ہرایٹ دوسری اینٹ کو سہارا دیتی ہے۔ تطویل کے خوف سے اسی پر اکتفاکرتا ہوں ۔اللہ تعالیٰ کے بارگاہ میں التجاہ ہے کہ تمام مسلمانوں کو تواصی بالحق اور تواصی بالصبر پر عمل پیرا ہونے کی توفیق رفیق عطافرمائے آمین بجاہ النَّبیِّ الامین الکریم۔
مفتی ابویاسرنبی حسین مکِّی
[/urdu]
0 Responses on Reform Among Muslims"