QTUTOR

Love among Muslims

[urdu]
نحمدہ و نصلی ونسلم علی رسولہ الکریم ۔ اما بعد
فاعوذ باللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم
قال الرحمٰن فی کلامہ الفرقان: وَلَا تَلْمِزُوۡۤا اَنۡفُسَکُمْ وَلَا تَنَابَزُوۡا بِالْاَلْقٰبِ(صدق اللہ العظیم)

اللہ کریم نے ہم پر یہ احسان فرمایا کہ ہمیں اپنے محبوب عطا فرمایا ایسا محبوب جس کی آمد سے کفر و شرک کے گھٹا ٹوپ اندھیرے چھٹ گئے، خزاں رسیدہ عالم میں چہار سو بہار آگئی ،جہالت و گمراہی کی گھاٹیوں میں بھٹکنے والوں کو عرفان و آگہی کی رفعتیں نصیب ہوئیں،رہزن رہبر بن گئے ، چرواہے امام بن گئے،دشمنی و حسد کی آگ میں جلنے اس محبوب کے صدقہ آپس میں بھائی بھائی بن گئے۔
رب ذیشان اپنے عطیم قرآن میں ارشاد فرماتا ہے:
وَاذْکُرُوۡا نِعْمَتَ اللہِ عَلَیۡکُمْ اِذْ کُنۡتُمْ اَعْدَآءً فَاَلَّفَ بَیۡنَ قُلُوۡبِکُمْ فَاَصْبَحْتُمۡ بِنِعْمَتِہٖۤ اِخْوٰنًاۚ وَکُنۡتُمْ عَلٰی شَفَا حُفْرَۃٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنۡقَذَکُمۡ مِّنْہَا
اور اللہ کا احسان یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے اس نے تمہارے دلوں میں محبت ڈال دی تو اس کے فضل سے تم آپس میں بھائی ہوگئے ۔ اور تم ایک غارِ دوزخ کے کنارے پر تھے تو اس نے تمہیں اس سے بچادیا۔
دے کے ساری نعمتیں کچھ نہ کہا —-دیدیا محبوب اپنا جب کہا
مومنوں تم پر میرا احسان ہے ——یہ میرے پیارے نبی کی شان ہے
ہمارے پیارے آقا ﷺ نے اس محبت و اخوت کو مزید پروان چڑھانے کیلئے انصار اور مہاجرین صحابہ کرام کے درمیان مواخات یعنی بھائی چارے کا رشتہ قائم فرمایا اور فرمایا المسلم اخ المسلم مسلمان مسلمان کا بھائی ہے اس رشتہ کی گہرائی و گیرائی ان الفاظ میں ارشاد فرمائی کہ مسلمانوں کا آپس میں رشتہ ایک جسم کی مانند ہے کسی ایک حصہ میں تکلیف ہو تو پورا جسم اس تکلیف کو محسوس کرتاہے۔
الغرض آپ ﷺ نے اپنی کاوشوں سے محبت و ایثار اور امن وآشتی کی ایسی دلنشیں فضا قائم فرمائی کہ چشم فلک نے ایسا منظر کبھی نہ دیکھا تھا
وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا
مرادیں غریبوں کی بر لانے والا
مفاسد کو زیر و زبر کرنے والا
قبائل کو شیر و شکر کرنے والا
اتر کر حرا سے سوئے قوم آیا
وہ اک نسخہ کیمیا ساتھ لایا
وہ بجلی کا کڑکا تھا یا صوت ہادی
عرب کی زمیں جس نے ساری ہلادی

اللہ کریم نے جب اپنے محبوب کی محنت شاقہ دیکھی تو اسے بھی اپنے محبوب کے غلاموں پہ پیار آگیا اور پروردگار نے اس پاکیزہ ماحول کو سبوتاز کرنے والے تمام کاموں کو ممنوع و ناجائز قرار دیدیا۔
ارشاد باری تعالٰی ہوتا ہے:
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا یَسْخَرْ قَوۡمٌ مِّنۡ قَوْمٍ عَسٰۤی اَنۡ یَّکُوۡنُوۡا خَیۡرًا مِّنْہُمْ وَلَا نِسَآءٌ مِّنۡ نِّسَآءٍ عَسٰۤی اَنۡ یَّکُنَّ خَیۡرًا مِّنْہُنَّ ۚ وَلَا تَلْمِزُوۡۤا اَنۡفُسَکُمْ وَلَا تَنَابَزُوۡا بِالْاَلْقٰبِ ؕ بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوۡقُ بَعْدَ الْاِیۡمٰنِ ۚ وَمَنۡ لَّمْ یَتُبْ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الظّٰلِمُوۡنَ ﴿۱۱﴾
اے ایمان والوں! نہ مرددوسرے مردوں کا مذاق اڑائےعجب نہیں کہ وہ ان مذاق اڑانےوالوں سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں دوسری عورتوں کا عجب نہیں کہ وہ ان ہنسے والیوں سے بہتر ہوں۔ اور آپس میں طعنہ زنی نہ کرو اور ایک دوسرے کے بُرے نام نہ رکھو ،کیا ہی بُرا نام ہے مسلمان ہوکر فاسق کہلانا ۔اور جو توبہ نہ کریں تو وہی ظالم ہیں ۔
کوئی کسی کا مذاق نہ اڑائے، نہ مرد مردوں کا مذاق اڑائیں نہ عورتیں عورتوں کا مذاق نہ اڑائے،ایک دوسرے پر الزام نہ لگاؤ، طعنہ زنی نہ کرو ، برے ناموں سے نہ پکارو ،کسی کانام نہ بگاڑو ، نہ زبان سے کسی پہ جملہ کسو اور نہ آنکھ کے اشاروں سے کسی پہ طنز کرو۔ اللہ کریم نے اس ایک آیت مبارکہ میں ان تمام برائیوں کی ممانعت ارشاد فرمادی جو ہمارے معاشرہ سے امن و محبت کے خاتمہ کا سبب بن سکتی ہیں۔
کسی پر جھوٹا الزام لگانا گناہ کبیرہ ہےاگر آپ کسی پر الزام لگاتے ہیں تو اسکی عزت کا پردہ چاک کرتے ہیں تو بتائے اگر آپ کسی کی عزت پامال کرینگے تو کیا آپ کی عزت و ناموس محفوظ رہے گی؟ ہر گز نہیں
پیارے آقا ﷺ نے فرمایا: المسلم من سلم المسلمون من لسانہ ویدہ
مسلمان تو وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔
ایک اور حدیث میں ارشاد فرمایا :جو کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرتا ہے اللہ قیامت کے اس دن کے عیبوں کی پردہ پوشی کرے گا۔
اللہ و اسکے رسول ﷺ نے ان تمام کاموں سے منع کردیا ۔وہ تمام کام اور باتیں جن سے کسی مسلمان کی دل آزاری ہو اسے رنج پہنچے وہ سب حرام و ناجائز قرار دیدیے گئے۔ مگر بد قسمتی سے آج ہم ان باتوں کی پرواہ نہیں کرتے قرآن وسنت کے احکامات سے رو گردانی، سیرت رسول ﷺ سے بیگانگی اور سنت رسول سے تغافل کی وجہ سے آج ہمارہ معاشرہ تباہ و برباد ہو چکا ہے۔ محبت نفرت میں بدل گئی، اخوت عداوت میں بدل گئی ، قربت رقابت میں بدل گئی ، اتحاد افتراق میں بدل گیا ،ایثار انتشار میں تبدیل ہوگیا الغرض ہماری زبان کی لغزشوں نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا امت کا شیرازہ بکھر گیا۔ عربی زبان کا بڑا مشہور مقولہ ہے:
جَرَاحَاتُ السِّنَانِ لَہَا التِّیَامُ –* –وَلَا یَلۡتَامُ مَا جَرۡحُ اللِّسَانۡ یعنی تلوار کا زخم تو مندمل ہو سکتا ہے مگر زبان سے دیا گیا زخم مندمل نہیں ہوتا۔
اگر ہم آج بھی مدینہ منورہ جیسا مثالی معاشرہ دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں مدینہ والے آقا کے فرمان اور ان پر نازل ہونے والے قرآن پر دل و جان سے عمل کرنا ہوگا۔ اپنے تمام مسلمان بھائیوں اور بہنوں کا ادب و احترام کرنا ہوگا اور مذاق اڑانا ،الزام تراشی کرنا ، طعنہ زنی کرنا برے ناموں سے پکارنا اور ان جیسی تمام بری عادتوں سے اپنی زبان کی حفاظت کرنی ہوگی تا کہ حدیث مبارکہ کی روشنی میں ہمارا ایمان کامل ہوجائے اور ہمارا معاشرہ ایک مرتبہ پھر محبت و اخوت اور امن و آشتی کا گہوارہ بن جائے۔ آمین۔
قوت عشق سے ہر پست کو بالا کردے
دہر میں اسم محمد سے اجالا کردے
Love among Muslims
[/urdu]

2 Responses on Love among Muslims"

  1. mustafa says:

    Mashallah . Nice Article

  2. Excellently written article I have learn all the posts and i found very distinctive data on this blog good work by your aspect thanks on your views these are very helpful for individuals who don’t know as much about Islam .

Leave a Message

Your email address will not be published. Required fields are marked *

online support software