جنگِ خندق
۵ھ کی تمام لڑائیوں میں یہ جنگ سب سے زیادہ مشہور اور فیصلہ کن جنگ ہے چونکہ دشمنوں سے حفاظت کے لئے شہر مدینہ کے گرد خندق کھودی گئی تھی اس لئے یہ لڑائی ”جنگ خندق” کہلاتی ہے اور چونکہ تمام کفار عرب نے متحد ہو کر اسلام کے خلاف یہ جنگ کی تھی اس لئے اس لڑائی کا دوسرا نام ”جنگ احزاب”(تمام جماعتوں کی متحدہ جنگ)ہے،قرآن مجید میں اس لڑائی کا تذکرہ اسی نام کے ساتھ آیا ہے۔
ghazwa e khandaq ghazwa e khandaq ghazwa e khandaq
جنگ خندق کا سبب
میثاق مدینہ کی خلاف ورزی کی وجہ سے”قبیلہ بنو نضیر” کے یہودی جب مدینہ سے نکال دئیے گئے تو ان میں سے یہودیوں کے چند رؤسا ”خیبر” میں جا کر آباد ہو گئے اور خیبر کے یہودیوں نے ان لوگوں کا اتنا اعزاز و اکرام کیا کہ سلام بن مشکم وابن ابی الحقیق وحیی بن اخطب و کنانہ بن الربیع کو اپنا سردار مان لیایہ لوگ چونکہ مسلمانوں کے خلاف غیظ و غضب میں بھرے ہوئے تھے اور انتقام کی آگ ان کے سینوں میں دہک رہی تھی اس لئے ان لوگوں نے مدینہ پر ایک زبردست حملہ کی اسکیم بنائی،چنانچہ یہ تینوں اس مقصد کے پیش نظر مکہ گئے اور کفار قریش سے مل کر یہ کہا کہ اگر تم لوگ ہمارا ساتھ دو تو ہم لوگ مسلمانوں کو صفحۂ ہستی سے نیست و نابود کر سکتے ہیں کفار قریش تو اس کے بھوکے ہی تھے فوراً ہی ان لوگوں نے یہودیوں کی ہاں میں ہاں ملا دی کفار قریش سے ساز باز کر لینے کے بعد ان تینوں یہودیوں نے ”قبیلہ بنو غطفان” کا رُخ کیااور خیبر کی آدھی آمدنی دینے کا لالچ دے کر ان لوگوں کو بھی مسلمانوں کےخلاف جنگ کرنے کے لئے آمادہ کر لیاپھر بنو غطفان نے اپنے حلیف ”بنو اسد” کو بھی جنگ کے لئے تیار کر لیاادھریہودیوں نے اپنے حلیف ”قبیلہ بنو اسعد” کو بھی اپنا ہمنوا بنا لیا اور کفار قریش نے اپنی رشتہ داریوں کی بنا پر ”قبیلہ بنو سلیم” کو بھی اپنے ساتھ ملا لیاغرض اس طرح تمام قبائل عرب کے کفار نے مل جل کر ایک لشکر جرار تیار کر لیا جس کی تعداد دس ہزار تھی اور ابوسفیان اس پورے لشکر کا سپہ سالار بن گیا۔(زُرقانی ج۲ ص۱۰۴ تا ۱۰۵)
مسلمانوں کی تیاری
جب قبائل عرب کے تمام کافروں کے اس گٹھ جوڑ اور خوفناک حملہ کی خبریں مدینہ پہنچیں تو حضورِ اقدسﷺنے اپنے اصحاب کو جمع فرما کر مشورہ فرمایا کہ اس حملہ کا مقابلہ کس طرح کیا جائے؟ حضرت سلمان فارسی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے یہ رائے دی کہ جنگ ِ اُحد کی طرح شہر سے باہر نکل کر اتنی بڑی فوج کے حملہ کو میدانی لڑائی میں روکنا مصلحت کے خلاف ہے لہٰذا مناسب یہ ہے کہ شہر کے اندر رہ کر اس حملہ کا دفاع کیا جائے اور شہر کے گرد جس طرف سے کفار کی چڑھائی کا خطرہ ہے ایک خندق کھود لی جائے تاکہ کفار کی پوری فوج بیک وقت حملہ آور نہ ہو سکے،مدینہ کے تین طرف چونکہ مکانات کی تنگ گلیاں اور کھجوروں کے جھنڈ تھے اس لئے ان تینوں جانب سے حملہ کا امکان نہیں تھا مدینہ کا صرف ایک رُخ کھلا ہوا تھا اس لئے یہ طے کیا گیا کہ اسی طرف پانچ گز گہری خندق کھودی جائے،چنانچہ ۸ ذوقعدہ ۵ھ کو حضور ﷺ تین ہزار صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو ساتھ لے کر خندق کھودنے میں مصروف ہو گئے،حضور ﷺ نے خود اپنے دست مبارک سے خندق کی حد بندی فرمائی اور دس دس آدمیوں پر دس دس گز زمین تقسیم فرما دی اور تقریباً بیس دن میں یہ خندق تیار ہوگئی۔ (مدارج النبوۃ ج۲ ص۱۶۸ تا ۱۷۰)
حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ حضور ﷺ خندق کے پاس تشریف لائے اور جب یہ دیکھا کہ انصار ومہاجرین کڑکڑاتے ہوئے جاڑے کے موسم میں صبح کے وقت کئی کئی فاقوں کے باوجود جوش و خروش کے ساتھ خندق کھودنے میں مشغول ہیں تو انتہائی متأثرہو کر آپ نے یہ رجز پڑھنا شروع کر دیا کہ ؎
اَللّٰھُمَّ اِنَّ الْعَیْشَ عَیْشُ الْاٰخِرَۃ
فَاغْفِرِ الْاَنْصَارَ وَالْمُھَاجِرَۃ
اے اﷲ!عزوجل بلا شبہ زندگی تو بس آخرت کی زندگی ہے لہٰذا تو انصار و مہاجرین کو بخش دے۔
اس کے جواب میں انصار و مہاجرین نے آواز ملا کر یہ پڑھنا شروع کر دیا کہ ؎
نَحْنُ الَّذِیْنَ بَایَعُوْا مُحَمَّدًا عَلَی الْجِھَادِ مَا بَقِیْنَا اَبَدًا
ہم وہ لوگ ہیں جنہوں نے جہاد پر حضرت محمد ﷺ کی بیعت کر لی ہے جب تک ہم زندہ رہیں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے۔ (بخاری غزوۂ خندق ج۲ ص۵۸۸)
حضرت براء بن عازب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ حضورﷺ خودبھی خندق کھودتے اور مٹی اُٹھا اُٹھا کر پھینکتے تھے۔ یہاں تک کہ آپ ﷺ کے شکم مبارک پر غبار کی تہ جم گئی تھی اور مٹی اٹھاتے ہوئے صحابہ کو جوش دلانے کے لئے رجز کے یہ اشعار پڑھتے تھے کہ ؎وَاللہِ لَوْلَا اللہُ مَا اھْتَدَیْنَا وَلَا تَصَدَّقْنَا وَلَا صَلَّیْنَا
خدا کی قسم! اگر اﷲ کا فضل نہ ہوتا تو ہم ہدایت نہ پاتے اور نہ صدقہ دیتے نہ نماز پڑھتے۔
فَاَنْزِلَنْ سَکِیْنَۃً عَلَیْنَا وَثَبِّتِ الْاَقْدَامَ اِنْ لَاقَیْنَا
لہٰذا اے اﷲ!عزوجل تو ہم پر قلبی اطمینان اتار دے اور جنگ کے وقت ہم کو ثابت قدم رکھ۔
اِنَّ الْاُلٰی قَدْ بَغَوْا عَلَیْنَا اِذَا اَرَادُوْا فِتْنَۃً اَبَیْنَا
یقینا ان (کافروں) نے ہم پر ظلم کیا ہے اور جب بھی ان لوگوں نے فتنہ کا ارادہ کیاتو ہم لوگوں نے انکار کر دیا۔
لفظ ”اَبَیْنَا” حضور ﷺ بار بار بہ تکرار بلند آواز سے دہراتے تھے۔
ایک عجیب چٹان
حضرت جابر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے بیان فرمایا کہ خندق کھودتے وقت ناگہاں ایک ایسی چٹان نمودار ہو گئی جو کسی سے بھی نہیں ٹوٹی جب ہم نے بارگاہ رسالت میں یہ ماجرا عرض کیا تو آپ ﷺ اٹھے تین دن کا فاقہ تھا اور شکم مبارک پر پتھر بندھاہوا تھاآپ نے اپنے دست مبارک سے پھاوڑا مارا تو وہ چٹان ریت کے بھربھرے ٹیلے کی طرح بکھر گئی۔ (بخاری جلد۲ ص۵۸۸ خندق)
اور ایک روایت یہ ہے کہ آپ ﷺ نے اس چٹان پر تین مرتبہ پھاوڑا ماراہر ضرب پر اس میں سے ایک روشنی نکلتی تھی اور اس روشنی میں آپ نے شام و ایران اور یمن کے شہروں کو دیکھ لیااور ان تینوں ملکوں کے فتح ہونے کی صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو بشارت دی۔(زُرقانی جلد۲ ص۱۰۹ و مدارج ج۲ ص۱۶۹)
اور نسائی کی روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے مدائن کسریٰ و مدائن قیصر و مدائن حبشہ کی فتوحات کا اعلان فرمایا۔(نسائی ج۲ ص۶۳)
حضرت جابررضی اللہ تعالیٰ عنہ کی دعوت
حضرت جابر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ فاقوں سے شکم اقدس پر پتھر بندھا ہوا دیکھ کر میرا دل بھر آیاچنانچہ میں حضور ﷺ سے اجازت لے کر اپنے گھر آیا اور بیوی سے کہا کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو اس قدر شدید بھوک کی حالت میں دیکھا ہے کہ مجھ کو صبر کی تاب نہیں رہی کیا گھر میں کچھ کھانا ہے؟ بیوی نے کہا کہ گھر میں ایک صاع جو کے سوا کچھ بھی نہیں ہے،میں نے کہا کہ تم جلدی سے اس جو کو پیس کر گوندھ لواور اپنے گھر کا پلا ہوا ایک بکری کا بچہ میں نے ذبح کرکے اس کی بوٹیاں بنا دیں اور بیوی سے کہا کہ جلدی سے تم گوشت روٹی تیار کر لومیں حضور ﷺ کو بلا کرلاتا ہوں،چلتے وقت بیوی نے کہا کہ دیکھنا صرف حضور ﷺ اور چند ہی اصحاب کو ساتھ میں لاناکھانا کم ہی ہے کہیں مجھے رسوا مت کر دینا۔ حضرت جابر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے خندق پر آ کر چپکے سے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ!ﷺ ایک صاع آٹے کی روٹیاں اور ایک بکری کے بچے کا گوشت میں نے گھر میں تیار کرایا ہے لہٰذا آپ ﷺصرف چند اشخاص کے ساتھ چل کر تناول فرما لیں،یہ سن کر حضور ﷺ نے فرمایا کہ اے خندق والو!جابر نے دعوت عام دی ہے لہٰذا سب لوگ ان کے گھر پر چل کر کھانا کھا لیں پھر مجھ سے فرمایا کہ جب تک میں نہ آجاؤں روٹی مت پکوانا،چنانچہ جب حضور ﷺ تشریف لائے تو گوندھے ہوئے آٹے میں اپنا لعاب دہن ڈال کر برکت کی دعا فرمائی اور گوشت کی ہانڈی میں بھی اپنا لعاب دہن ڈال دیا۔ پھر روٹی پکانے کا حکم دیااور یہ فرمایا کہ ہانڈی چولھے سے نہ اتاری جائے پھر روٹی پکنی شروع ہوئی اور ہانڈی میں سے حضرت جابر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی بیوی نے گوشت نکال نکال کر دینا شروع کیاایک ہزار آدمیوں نے آسودہ ہو کر کھانا کھا لیامگر گوندھا ہوا آٹا جتنا پہلے تھا اتنا ہی رہ گیا اور ہانڈی چولھے پر بدستور جوش مارتی رہی۔(بخاری ج۲ ص۵۸۹ غزوہ خندق)
بابرکت کھجوریں
اسی طرح ایک لڑکی اپنے ہاتھ میں کچھ کھجوریں لے کر آئی،حضور ﷺ نے پوچھا کہ کیا ہے؟ لڑکی نے جواب دیا کہ کچھ کھجوریں ہیں جو میری ماں نے میرے باپ کے ناشتہ کے لئے بھیجی ہیں،آپ ﷺ نے ان کھجوروں کواپنے دست مبارک میں لے کر ایک کپڑے پر بکھیر دیا اور تمام اہل خندق کو بلا کر فرمایا کہ خوب سیر ہو کر کھاؤچنانچہ تمام خندق والوں نے شکم سیر ہو کر ان کھجوروں کو کھایا۔
(مدارج جلد۲ ص۱۶۹)
یہ دونوں واقعات حضور سرور کائنات ﷺ کے معجزات میں سے ہیں۔
اسلامی افواج کی مورچہ بندی
حضورِ اقدس ﷺ نے خندق تیار ہو جانے کے بعد عورتوں اور بچوں کو مدینہ کے محفوظ قلعہ میں جمع فرما دیا اور مدینہ پر حضرت ابن اُمِ مکتوم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو اپنا خلیفہ بنا کر تین ہزار انصار و مہاجرین کی فوج کے ساتھ مدینہ سے نکل کر سَلَع پہاڑ کے دامن میں ٹھہرے سلع آپ کی پشت پر تھااور آپ کے سامنے خندق تھی۔ مہاجرین کا جھنڈا حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ میں دیااور انصار کا علمبردار حضرت سعد بن عبادہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو بنایا۔ (زرقانی جلد۲ ص۱۱۱)
کفار کا حملہ
کفار قریش اور ان کے اتحادیوں نے دس ہزار کے لشکر کے ساتھ مسلمانوں پر ہلابول دیا اور تین طرف سے کافروں کا لشکر اس زور شورکے ساتھ مدینہ پر امنڈ پڑا کہ شہر کی فضاؤں میں گردو غبار کا طوفان اٹھ گیااس خوفناک چڑھائی اور لشکر کفار کے دل بادل کی معرکہ آرائی کا نقشہ قرآن کی زبان سے سنیے:
اِذْ جَآءُوۡکُمۡ مِّنۡ فَوْقِکُمْ وَ مِنْ اَسْفَلَ مِنۡکُمْ وَ اِذْ زَاغَتِ الْاَبْصَارُ وَ بَلَغَتِ الْقُلُوۡبُ الْحَنَاجِرَ وَ تَظُنُّوۡنَ بِاللہِ الظُّنُوۡنَا ﴿۱۰﴾ہُنَالِکَ ابْتُلِیَ الْمُؤْمِنُوۡنَ وَ زُلْزِلُوۡا زِلْزَالًا شَدِیۡدًا ﴿۱۱﴾
جب کافر تم پر آ گئے تمہارے اوپر سے ا و ر تمہارے نیچے سے اور جب کہ ٹھٹھک کر رہ گئیں نگاہیں اور دل گلوں کے پاس(خوف سے)آ گئے اور تم اﷲ پر (امید و یاس سے) طرح طرح کے گمان کرنے لگے اس جگہ مسلمان آزمائش اور امتحان میں ڈال دئیے گئے اور وہ بڑے زور کے زلزلے میں جھنجھوڑ کر رکھ دئیے گئے۔(احزاب)
منافقین جو مسلمانوں کے دوش بدوش کھڑے تھے وہ کفار کے اس لشکر کو دیکھتے ہی بزدل ہو کر پھسل گئے اوراس وقت ان کے نفاق کا پردہ چاک ہو گیا۔ چنانچہ ان لوگوں نے اپنے گھر جانے کی اجازت مانگنی شروع کر دی۔ جیسا کہ قرآن میں اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ
وَیَسْتَاْذِنُ فَرِیۡقٌ مِّنْہُمُ النَّبِیَّ یَقُوۡلُوۡنَ اِنَّ بُیُوۡتَنَا عَوْرَۃٌ ؕۛ وَمَا ہِیَ بِعَوْرَۃٍ ۚۛ اِنۡ یُّرِیۡدُوۡنَ اِلَّا فِرَارًا ﴿۱۳﴾ )
اور ایک گروہ(منافقین) ان میں سے نبی کی اجازت طلب کرتا تھا منافق کہتے ہیں کہ ہمارے گھر کھلے پڑے ہیں حالانکہ وہ کھلے ہوئے نہیں تھے ان کا مقصد بھاگنے کے سوا کچھ بھی نہ تھا۔(احزاب)
لیکن اسلام کے سچے جاں نثار مہاجرین و انصار نے جب لشکر کفار کی طوفانی یلغار کو دیکھا تو اس طرح سینہ سپر ہو کر ڈٹ گئے کہ ”سلع” اور ”احد” کی پہاڑیاں سراٹھا اٹھا کر ان مجاہدین کی اولوالعزمی کو حیرت سے دیکھنے لگیں ان جاں نثاروں کی ایمانی شجاعت کی تصویر صفحات قرآن پر بصورت تحریر دیکھیے ارشاد ربانی ہے کہ
وَلَمَّا رَاَ الْمُؤْمِنُوۡنَ الْاَحْزَابَ ۙ قَالُوۡا ہٰذَا مَا وَعَدَنَا اللہُ وَ رَسُوۡلُہٗ وَ صَدَقَ اللہُ وَ رَسُوۡلُہٗ ۫ وَمَا زَادَہُمْ اِلَّاۤ اِیۡمَانًا وَّ تَسْلِیۡمًا ﴿ؕ۲۲﴾
اور جب مسلمانوں نے قبائل کفار کے لشکروں کو دیکھا تو بول اٹھے کہ یہ تو وہی منظر ہے جس کا اﷲ اوراسکے رسول نے ہم سے وعدہ کیا تھااور خدا اور اسکا رسول دونوں سچے ہیں اور اس نے ان کے ایمان و اطاعت کو اور زیادہ بڑھا دیا۔(احزاب)
بنو قریظہ کی غداری
قبیلہ بنو قریظہ کے یہودی اب تک غیر جانبدار تھے لیکن بنو نضیر کے یہودیوں نے ان کو بھی اپنے ساتھ ملا کر لشکر کفار میں شامل کر لینے کی کوشش شروع کر دی چنانچہ حیی بن اخطب ابو سفیان کے مشورہ سے بنو قریظہ کے سردار کعب بن اسد کے پاس گیا پہلے تو اسنے اپنا دروازہ نہیں کھولا اور کہا کہ ہم محمد (ﷺ) کے حلیف ہیں اور ہم نے ان کو ہمیشہ اپنے عہد کا پابند پایا ہے اس لئے ہم ان سے عہد شکنی کرنا خلاف مروت سمجھتے ہیں مگر بنو نضیر کے یہودیوں نے اس قدر شدید اصرار کیااور طرح طرح سے ورغلایا کہ بالآخر کعب بن اسد معاہدہ توڑنے کے لئے راضی ہو گیا،بنو قریظہ نے جب معاہدہ توڑ دیا اور کفار سے مل گئے تو کفار مکہ اور ابو سفیان خوشی سے باغ باغ ہو گئے۔
حضورِ اقدس ﷺ کو جب اس کی خبر ملی تو آپ نے حضرت سعدبن معاذ اور حضرت سعد بن عبادہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہما کو تحقیق حال کے لئے بنو قریظہ کے پاس بھیجاوہاں جا کر معلوم ہوا کہ واقعی بنو قریظہ نے معاہدہ توڑ دیا ہے جب ان دونوں معزز صحابیوں رضی اللہ تعالیٰ عنہمانے بنو قریظہ کو ان کا معاہدہ یاد دلایا تو ان یہودیوں نے انتہائی بے حیائی کے ساتھ یہاں تک کہہ دیا کہ ہم کچھ نہیں جانتے کہ محمد(ﷺ) کون ہیں؟ اور معاہدہ کس کو کہتے ہیں؟ ہمارا کوئی معاہدہ ہوا ہی نہیں تھایہ سن کر دونوں حضرات واپس آ گئے اور صورتحال سے حضور ﷺ کو مطلع کیاتو آپ نے بلند آواز سے ”اﷲ اکبر” کہا اور فرمایا کہ مسلمانو! تم اس سے نہ گھبراؤنہ اس کا غم کرو اس میں تمہارے لئے بشارت ہے۔ (زرقانی جلد ۲ ص۱۱۳)
کفار کا لشکر جب آگے بڑھا تو سامنے خندق دیکھ کر ٹھہر گیااور شہر مدینہ کا محاصرہ کر لیا اور تقریباً ایک مہینے تک کفار شہر مدینہ کے گرد گھیرا ڈالے ہوئے پڑے رہے اور یہ محاصرہ اس سختی کے ساتھ قائم رہا کہ حضورﷺ اورصحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم پر کئی کئی فاقے گزر گئے۔
کفار نے ایک طرف تو خندق کا محاصرہ کر رکھا تھا اور دوسری طرف اس لئے حملہ کرنا چاہتے تھے کہ مسلمانوں کی عورتیں اور بچے قلعوں میں پناہ گزیں تھے مگر حضور ﷺ نے جہاں خندق کے مختلف حصوں پر صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو مقرر فرما دیا تھا کہ وہ کفار کے حملوں کا مقابلہ کرتے رہیں اسی طرح عورتوں اور بچوں کی حفاظت کے لئے بھی کچھ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو متعین کر دیا تھا۔
انصار کی ایمانی شجاعت
محاصرہ کی وجہ سے مسلمانوں کی پریشانی دیکھ کر حضورِ اکرم ﷺنے یہ خیال کیا کہ کہیں مہاجرین و انصار ہمت نہ ہار جائیں اس لئے آپ نے ارادہ فرمایا کہ قبیلہ غطفان کے سردار عیینہ بن حصن سے اس شرط پر معاہدہ کر لیں کہ وہ مدینہ کی ایک تہائی پیداوار لے لیا کرے اور کفار مکہ کا ساتھ چھوڑ دے مگر جب آپ ﷺ نے حضرت سعد بن معاذ اور حضرت سعد بن عبادہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہما سے اپنا یہ خیال ظاہر فرمایاتو ان دونوں نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ!(ﷺ) اگر اس بارے میں اﷲ تعالیٰ کی طرف سے وحی اتر چکی ہے جب تو ہمیں اس سے انکار کی مجال ہی نہیں ہو سکتی اور اگر یہ ایک رائے ہے تو یا رسول اﷲ!(ﷺ) جب ہم کفر کی حالت میں تھے اس وقت تو قبیلہ غطفان کے سرکش کبھی ہماری ایک کھجور نہ لے سکے اور اب جب کہ اﷲ تعالیٰ نے ہم لوگوں کو اسلام اور آپ ﷺ کی غلامی کی عزت سے سرفراز فرما دیا ہے تو بھلا کیونکر ممکن ہے کہ ہم اپنا مال ان کافروں کو دے دیں گے؟ ہم ان کفار کو کھجوروں کا انبار نہیں بلکہ نیزوں اور تلواروں کی مار کا تحفہ دیتے رہیں گے یہاں تک کہ اﷲ تعالیٰ ہمارے اور ان کے درمیان فیصلہ فرما دے گا،یہ سن کر حضورﷺ خوش ہوگئے اورآپ کوپوراپورااطمینان ہو گیا۔(زرقانی ج۲ص۱۱۳)
خندق کی و جہ سے دست بدست لڑائی نہیں ہو سکتی تھی اور کفار حیران تھے کہ اس خندق کو کیونکر پار کریں مگر دونوں طرف سے روزانہ برابر تیر اور پتھر چلا کرتے تھے آخر ایک روز عمرو بن عبدودو عکرمہ بن ابو جہل وہبیرہ بن ابی وہب وضرار بن الخطاب وغیرہ کفار کے چند بہادروں نے بنو کنانہ سے کہا کہ اٹھوآج مسلمانوں سے جنگ کرکے بتا دو کہ شہسوار کون ہے؟ چنانچہ یہ سب خندق کے پاس آ گئے اور ایک ایسی جگہ سے جہاں خندق کی چوڑائی کچھ کم تھی گھوڑا کودا کر خندق کو پار کر لیا۔
سب سے آگے عمرو بن عبدود تھایہ اگرچہ نوے برس کا بوڑھا تھا مگر ایک ہزار سواروں کے برابر بہادر مانا جاتا تھاجنگ ِ بدر میں زخمی ہو کر بھاگ نکلا تھا اور اس نے یہ قسم کھا رکھی تھی کہ جب تک مسلمانوں سے بدلہ نہ لے لوں گا بالوں میں تیل نہ ڈالوں گا،یہ آگے بڑھا اور چلا چلا کر مقابلہ کی دعوت دینے لگاتین مرتبہ اس نے کہا کہ کون ہے جو میرے مقابلہ کو آتا ہے؟ تینوں مرتبہ حضرت علی شیرخداکرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم نے اُٹھ کر جواب دیا کہ ”میں” حضور ﷺ نے روکاکہ اے علی!کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم یہ عمرو بن عبدود ہے۔حضرت علی شیر خداکرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم نے عرض کیا کہ جی ہاں میں جانتا ہوں کہ یہ عمرو بن عبدود ہے لیکن میں اس سے لڑوں گا،یہ سن کر تاجدار نبوت ﷺ نے اپنی خاص تلوار ذوالفقار اپنے دست مبارک سے حیدر کرارکرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم کے مقدس ہاتھ میں دے دی اور اپنے مبارک ہاتھوں سے ان کے سر انور پر عمامہ باندھااوریہ دعا فرمائی کہ اےاللہ! تو علی کی مدد فرما ۔حضرت اسد اﷲ الغالب علی بن ابی طالب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ مجاہدانہ شان سے اس کے سامنے کھڑے ہو گئے اور دونوں میں اس طرح مکالمہ شروع ہوا:
حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اے عمرو بن عبدود! تو مسلمان ہو جا!
عمرو بن عبدود یہ مجھ سے کبھی ہر گز ہر گز نہیں ہو سکتا!
حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ لڑائی سے واپس چلا جا!
عمرو بن عبدود یہ مجھے منظور نہیں!
حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ تو پھر مجھ سے جنگ کر!
عمرو بن عبدود ہنس کر کہا کہ میں کبھی یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ دنیا
میں کوئی مجھ کو جنگ کی دعوت دے گا۔
حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ لیکن میں تجھ سے لڑنا چاہتا ہوں۔
عمرو بن عبدود آخر تمہارا نام کیا ہے؟
حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ علی بن ابی طالب
عمرو بن عبدود اے بھتیجے!تم ابھی بہت ہی کم عمر ہومیں تمہارا خون بہانا پسند نہیں کرتا۔
حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ لیکن میں تمہاراخون بہانے کوبے حدپسندکرتا ہوں۔
عمرو بن عبدود خون کھولا دینے والے یہ گرم گرم جملے سن کر مارے غصہ کے آپے سے باہر ہو گیاحضرت شیر خداکرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم پیدل تھے اور یہ سوار تھااس پر جو غیرت سوار ہوئی توگھوڑے سے اتر پڑا اور اپنی تلوار سے گھوڑے کے پاؤں کاٹ ڈالے اور ننگی تلوار لے کر آگے بڑھا اورحضرت شیر خداکرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم پر تلوار کا بھرپور وار کیاحضرت شیر خدا نے تلوار کے اس وار کو اپنی ڈھال پر روکا،یہ وار اتنا سخت تھا کہ تلوار ڈھال اور عمامہ کو کاٹتی ہوئی پیشانی پر لگی گو بہت گہرا زخم نہیں لگامگر پھر بھی زندگی بھریہ طغریٰ آپ کی پیشانی پر یادگار بن کر رہ گیاحضرت علی شیر خدا رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے تڑپ کر للکارا کہ اے عمرو! سنبھل جااب میری باری ہے یہ کہہ کر اسد اﷲ الغالب کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم نے ذوالفقار کا ایسا جچا تلا ہاتھ مارا کہ تلوار دشمن کے شانے کو کاٹتی ہوئی کمر سے پار ہو گئی اور وہ تلملا کر زمین پر گرااور دم زدن میں مر کر فی النار ہو گیااور میدان کارزار زبان حال سے پکار اٹھا کہ ؎
شاہِ مرداں، شیرِ یزداں قوتِ پرورد گار
لَا فَتٰی اِلَّا عَلِی لَا سَیْفَ اِلَّا ذُوالْفِقَار
حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اس کو قتل کیااور منہ پھیر کر چل دئیے حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ اے علی!کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم آپ نے عمرو بن عبدود کی زرہ کیوں نہیں اتار لی ؟سارے عرب میں اس سے اچھی کوئی زرہ نہیں ہے آپ نے فرمایا کہ اے عمر!رضی اللہ تعالیٰ عنہ ذوالفقار کی مار سے وہ اس طرح بے قرار ہو کر زمین پر گرا کہ اس کی شرمگاہ کھل گئی اس لئے حیاء کی وجہ سے میں نے منہ پھیر لیا۔(زُرقانی ج۲ ص۱۱۴و۱۱۵)
اس کے بعد نوفل غصہ میں بپھرا ہوا میدان میں نکلااور پکارنے لگا کہ میرے مقابلہ کے لئے کون آتا ہے؟ حضرت زبیر بن العوام رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اس پر بجلی کی طرح جھپٹے اور ایسی تلوار ماری کہ وہ دو ٹکڑے ہو گیا اور تلوار زین کو کاٹتی ہوئی گھوڑے کی کمر تک پہنچ گئی لوگوں نے کہا کہ اے زبیر!رضی اللہ تعالیٰ عنہ تمہاری تلوار کی تو مثال نہیں مل سکتی آپ نے فرمایاکہ تلوار کیا چیز ہے؟ کلائی میں دم خم اور ضرب میں کمال چاہیے۔ ہبیرہ اور ضرار بھی بڑے طنطنہ سے آگے بڑھے مگر جب ذوالفقار کا وار دیکھا تو لرزہ برانداہو کر فرار ہو گئے کفار کے باقی شہسوار بھی جو خندق کو پار کرکے آ گئے تھے وہ سب بھی بھاگ کھڑے ہوئے اور ابو جہل کا بیٹا عکرمہ تو اس قدر بدحواس ہو گیا کہ اپنا نیزہ پھینک کر بھاگا اور خندق کے پار جا کر اس کو قرار آیا۔(زرقانی جلد ۲ )
اس دن کاحملہ بہت ہی سخت تھادن بھرلڑائی جاری رہی اوردونوں طرف سے تیراندازی اورپتھربازی کاسلسلہ برابرجاری رہااورکسی مجاہدکااپنی جگہ سے ہٹنانا ممکن تھا، خالد بن ولید نے اپنی فوج کے ساتھ ایک جگہ سے خندق کو پار کر لیا اور بالکل ہی ناگہاں حضور ﷺ کے خیمہ اقدس پر حملہ آور ہو گیامگر حضرت اسید بن حضیر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اس کو دیکھ لیا اور دو سو مجاہدین کو ساتھ لے کر دوڑ پڑے اور خالد بن الولید کے دستہ کے ساتھ دست بدست کی لڑائی میں ٹکرا گئے اور خوب جم کر لڑے اس لئے کفار خیمہ رسول ﷺ تک نہ پہنچ سکے ۔ (زرقانی جلد۲ ص۱۱۷)
ا س گھمسان کی لڑائی میں حضورﷺ کی نماز عصر قضا ہو گئی۔ بخاری شریف کی روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ جنگ خندق کے دن سورج غروب ہونے کے بعد کفار کو برا بھلا کہتے ہوئے بارگاہ ِرسالت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ
یا رسول اﷲ!ﷺ میں نماز عصر نہیں پڑھ سکا ۔تو حضور ﷺ نے فرمایا کہ میں نے بھی ابھی تک نماز عصر نہیں پڑھی ہے پھر آپ نے وادی بطحان میں سورج غروب ہو جانے کے بعد نماز عصر قضا پڑھی پھر اس کے بعد نماز مغرب ادا فرمائی۔ اور کفار کے حق میں یہ دعا مانگی کہ
مَلَاَ اللہُ عَلَیْہِمْ بُیُوْتَھُمْ وَقُبُوْرَھُمْ نَارًا کَمَا شَغَلُوْنَا عَنِ الصَّلٰوۃِ الْوُسْطٰی حَتّٰی غَابَتِ الشَّمْسُ (بخاری ج2ص۵۹۰)
اﷲ ان مشرکوں کے گھروں اور ان کی قبروں کو آگ سے بھر دے ان لوگوں نے ہم کو نماز وسطیٰ سے روک دیایہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا۔
جنگ خندق کے دن حضور ﷺ نے یہ دعا بھی فرمائی کہ :
اَللّٰھُمَّ مُنْزِلَ الْکِتَابِ سَرِیْعَ الْحِسَابِ اھْزِمِ الْاَحْزَابَ اَللّٰھُمَّ اھْزِمْھُمْ وَزَلْزِلْھُمْ (بخاری ج۲ ص۵۹۰)
اے اﷲ!عزوجل اے کتاب نازل فرمانے والے!جلدحساب لینے والے!تو ان کفار کے لشکروں کو شکست دے دے،
اے اﷲ!عزوجل ان کو شکست دے اور انہیں جھنجھوڑ دے۔
حضرت زبیررضی اللہ تعالیٰ عنہ کوخطاب ملا
حضور ﷺ نے جنگ خندق کے موقع پر جب کہ کفار مدینہ کا محاصرہ کئے ہوئے تھے اور کسی کے لئے شہر سے باہر نکلنا دشوار تھاتین مرتبہ ارشاد فرمایا کہ کون ہے جو قوم کفار کی خبر لائے؟ تینوں مرتبہ حضرت زبیر بن العوام رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے جو حضور ﷺ کی پھوپھی حضرت صفیہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے فرزند ہیں یہ کہا کہ ”میں یا رسول اﷲ!( ﷺ)خبر لاؤں گا۔” حضرت زبیر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی اس جان نثاری سے خوش ہو کر تاجدار دو عالم ﷺ نے فرمایا کہ
لِکُلِّ نَبِیٍّ حَوَارِیٌّ وَّاِنَّ حَوَارِیَّ الزُّبَیْرُ (بخاری ج۲ ص۵۹۰)
ہرنبی کے لئے حواری(مددگارخاص)ہوتے ہیں اور میرا ”حواری” زبیر ہے۔
اسی طرح حضرت زبیررضی اﷲ تعالیٰ عنہ کوبارگاہ رسالت سے ”حواری” کا خطاب ملاجو کسی دوسرے صحابی کو نہیں ملا۔
حضرت سعد بن معاذرضی اللہ تعالیٰ عنہ شہید
اس جنگ میں مسلمانوں کا جانی نقصان بہت ہی کم ہوایعنی کل چھ مسلمان شہادت سے سرفرازہوئے مگر انصار کا سب سے بڑا بازو ٹوٹ گیایعنی حضرت سعد بن معاذ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ جو قبیلہ اوس کے سردار اعظم تھے،اس جنگ میں ایک تیر سے زخمی ہو گئے اور پھر شفا یاب نہ ہو سکے۔
آپ کی شہادت کا واقعہ یہ ہے کہ آپ ایک چھوٹی سی زرہ پہنے ہوئے جوش میں بھرے ہوئے نیزہ لے کر لڑنے کے لئے جا رہے تھے کہ ابن العرقہ نامی کافر نے ایسا نشانہ باندھ کر تیر مارا کہ جس سے آپ کی ایک رگ جس کا نام اکحل ہے وہ کٹ گئی جنگ ختم ہونے کے بعد ان کے لئے حضور ﷺ نے مسجد نبوی میں ایک خیمہ گاڑااور ان کا علاج کرنا شروع کیا۔ خود اپنے دست مبارک سے ان کے زخم کو دو مرتبہ داغا، ان کا زخم بھرنے لگ گیا تھا لیکن انہوں نے شوق شہادت میں خداوند تعالیٰ سے یہ دعا مانگی کہ
یااﷲ!عزوجل تو جانتا ہے کہ کسی قوم سے جنگ کرنے کی مجھے اتنی زیادہ تمنا نہیں ہے جتنی کفار قریش سے لڑنے کی تمنا ہے جنہوں نے تیرے رسول ﷺ کو جھٹلایا اور ان کو ان کے وطن سے نکالا،اے اﷲ!عزوجل میرا تویہی خیال ہے کہ اب تو نے ہمارے اور کفار قریش کے درمیان جنگ کا خاتمہ کر دیا ہے لیکن اگر ابھی کفار قریش سے کوئی جنگ باقی رہ گئی ہوجب تومجھے تو زندہ رکھ تا کہ میں تیری راہ میں ان کافروں سے جہاد کروں اور اگر اب ان لوگوں سے کوئی جنگ باقی نہ رہ گئی ہو تو میرے اس زخم کو تو پھاڑ دے اور اسی زخم میں تو مجھے موت عطا فرما دے۔
آپ کی یہ دعا ختم ہوتے ہی بالکل اچانک آپ کا زخم پھٹ گیااور خون بہ کر مسجد نبوی کے اندر بنی غفار کے خیمہ میں پہنچ گیاان لوگوں نے چونک کر کہا کہ اے خیمہ والو! یہ کیسا خون ہے جو تمہارے خیمہ سے بہ کر ہماری طرف آ رہا ہے؟ جب لوگوں نےدیکھا تو حضرت سعد بن معاذ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے زخم سے خون بہ رہا تھااسی زخم میں ان کی وفات ہو گئی۔
حضورِ اقدس ﷺ نے فرمایا کہ سعد بن معاذرضی اللہ تعالیٰ عنہ کی موت سے عرش الٰہی ہل گیا اور ان کے جنازہ میں ستر ہزار ملائکہ حاضر ہوئے اور جب ان کی قبر کھودی گئی تو اس میں مشک کی خوشبو آنے لگی۔ (زرقانی ج۲ ص۱۴۳)
عین وفات کے وقت حضور انور ﷺ ان کے سرہانے تشریف فرما تھے،انہوں نے آنکھ کھول کر آخری بار جمال نبوت کا نظارہ کیا اور کہا کہ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللہِ۔پھر بہ آواز بلند یہ کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ ﷺ اﷲ کے رسول ہیں اور آپ نے تبلیغ رسالت کا حق ادا کر دیا۔(مدارج النبوۃ ج۲ ص۱۸۱)
حضرت صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکی بہادری
جنگ خندق میں ایک ایسا موقع بھی آیا کہ جب یہودیوں نے یہ دیکھا کہ ساری مسلمان فوج خندق کی طرف مصروفِ جنگ ہے تو جس قلعہ میں مسلمانوں کی عورتیں اور بچے پناہ گزین تھے یہودیوں نے اچانک اس پر حملہ کر دیااور ایک یہودی دروازہ تک پہنچ گیا،حضور ﷺ کی پھوپھی حضرت صفیہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے اس کو دیکھ لیا اور حضرت حسان بن ثابت رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ تم اس یہودی کو قتل کردو،ورنہ یہ جا کر دشمنوں کو یہاں کا حال و ماحول بتا دے گاحضرت حسان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی اس وقت ہمت نہیں پڑی کہ اس یہودی پر حملہ کریں یہ دیکھ کر خود حضرت صفیہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے خیمہ کی ایک چوب اکھاڑ کر اس یہودی کے سر پر اس زور سے مارا کہ اس کا سر پھٹ گیاپھرخود ہی اس کا سر کاٹ کر قلعہ کے باہر پھینک دیایہ دیکھ کر حملہ آور یہودیوں کو یقین ہو گیا کہ قلعہ کے اندر بھی کچھ فوج موجود ہے اس ڈر سے انہوں نے پھر اس طرف حملہ کرنے کی جراء ت ہی نہیں کی۔(زرقانی ج۲ ص۱۱۱)
کفار کیسے بھاگے؟
حضرت نعیم بن مسعود اشجعی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ قبیلہ غطفان کے بہت ہی معزز سردار تھے اور قریش و یہود دونوں کو ان کی ذات پر پورا پورا اعتماد تھایہ مسلمان ہو چکے تھے لیکن کفار کو ان کے اسلام کا علم نہ تھاانہوں نے بارگاہ رسالت میں یہ درخواست کی کہ یارسول اﷲ! ﷺ اگر آپ مجھے اجازت دیں تو میں یہود اور قریش دونوں سے ایسی گفتگو کروں کہ دونوں میں پھوٹ پڑ جائے،آپ نے اس کی اجازت دے دی چنانچہ انہوں نے یہود اور قریش سے الگ الگ کچھ اس قسم کی باتیں کیں جس سے واقعی دونوں میں پھوٹ پڑ گئی۔
ابو سفیان شدید سردی کے موسم، طویل محاصرہ،فوج کا راشن ختم ہو جانے سے حیران و پریشان تھاجب اس کو یہ پتا چلا کہ یہودیوں نے ہمارا ساتھ چھوڑ دیا ہے تو اس کا حوصلہ پست ہو گیا اور وہ بالکل ہی بددل ہو گیاپھر ناگہاں کفار کے لشکر پر قہر قہار و غضب جبار کی ایسی مار پڑی کہ اچانک مشرق کی جانب سے ایسی طوفان خیز آندھی آئی کہ دیگیں چولھوں پر سے الٹ پلٹ ہو گئیں،خیمے اکھڑ اکھڑ کر اڑ گئے اور کافروں پر ایسی وحشت اور دہشت سوار ہو گئی کہ انہیں راہ فرار اختیار کرنے کے سوا کوئی چارہ کار ہی نہیں رہا،یہی وہ آندھی ہے جس کا ذکر خداوند قدوس نے قرآن میں اس طرح بیان فرمایا کہ
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اذْکُرُوۡا نِعْمَۃَ اللہِ عَلَیۡکُمْ اِذْ جَآءَتْکُمْ جُنُوۡدٌ فَاَرْسَلْنَا عَلَیۡہِمْ رِیۡحًا وَّ جُنُوۡدًا لَّمْ تَرَوْہَا ؕ وَ کَانَ اللہُ بِمَا تَعْمَلُوۡنَ بَصِیۡرًا ۚ﴿۹﴾
اے ایمان والو! خدا کی اس نعمت کو یاد کرو جب تم پر فوجیں آ پڑیں تو ہم نے ان پر آندھی بھیج دی۔ اور ایسی فوجیں بھیجیں جو تمہیں نظر نہیں آتی تھیں اور اﷲ تمہارے کاموں کو دیکھنے والا ہے۔ (احزاب)
ابو سفیان نے اپنی فوج میں اعلان کرا دیا کہ راشن ختم ہو چکا،موسم انتہائی خراب ہے،یہودیوں نے ہمارا ساتھ چھوڑ دیالہٰذا اب محاصرہ بے کار ہے،یہ کہہ کر کوچ کا نقارہ بجا دینے کا حکم دے دیااور بھاگ نکلا قبیلہ غطفان کا لشکر بھی چل دیابنو قریظہ بھی محاصرہ چھوڑ کر اپنے قلعوں میں چلے گئے اور ان لوگوں کے بھاگ جانے سے مدینہ کا مطلع کفار کے گردو غبار سے صاف ہو گیا اور اس طرح غزوہ خندق میں مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی۔
ghazwa e khandaq
ماشاء اللہ کیا خوب تحقیق کے ساتھ لکھا ہے تمام واقعات پڑھ کر لگا کہ جیسے غزوہ خندق کوئی ابھی گزرا ہو اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی دعوت کا واقعہ تو ہر کوئی سناتاہے لیکن یہ نہیں معلوم تھا کہ انہوں نے یہ دعوت غزوہ خندق کے دوران کی تھی ماشاء اللہ بہت ہی اعلی
پسندفرمانے کا شکریہ جناب۔
Thank you very much. I wanted to thanks on your time for this
excellent article. It was great and useful… Very Good Article keep it up dear..