QTUTOR

The Martyrdom of Imam Hussain R.A

[urdu]

دس محرم الحرام اسلام کی تاریخ کا وہ دل سوزاور پر غم ددن ہے اس دن کا آغازکربلا میں کچھ اس طرح ہوا کہ حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نےاپنے تمام رُفقاءِ اہلِ بیت کے ساتھ فجر کے وقت اپنی عمر کی آخری نماز باجماعت نہایت ذوق و شوق تضرّع و خشوع کے ساتھ ادافرمائی۔ ذکر و اذکار سے زبانیں تر
کیں اللہ کی بندگی سے دن کا آغاز فرمایا ۔ نماز کی ادائیگی کے بعدآپ رضی اللہ عنہ خیمہ میں تشریف لائے، دسویں کا سورج طلوع ہو رہاہےامامِ عالی مقام رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے تمام رفقاء واہل بیت تین دن کے بھوکے پیاسے ہیں،پانی کی ایک بوند بھی میسر نہیں ایک لقمہ حلق سے اتر نہیں، پھر غریب الوطنی یز دھوپ،گرم ریت اور گرم ہوائیں ان سب مشکلات کےباوجود جورو جفا کے پھاڑ توڑنے کیلئے بائیس ہزار فوج اور تازہ دم مسلح لشکر صفیں باندھے سامنے موجود ،جنگ کا نقارہ بجا اورمہمان بناکر بلانے والی قوم نے جانوں پر کھیلنے کی دعوت دی ۔
امام عالی مقام نے خطبہ ارشاد فرمایا:
خون ناحق حرام او رغضب الٰہی عزوجل کا موجب ہے، میں
تمہیں آگاہ کرتاہوں کہ تم اس گناہ میں مبتلانہ ہو،میں نے کسی کو قتل نہیں کیاہے، کسی کا گھر نہیں جلایا، کسی پر حملہ آور نہیں ہوا۔ اگر تم اپنے شہر میں میرا آنا نہیں چاہتے ہوتو مجھے واپس جانے دو، تم سے کسی چیز کا طلب گار نہیں، تمہارے درپے آزارنہیں، تم کیوں میری جان کے درپے ہو اور تم کس طرح میرے خون کے الزام سے بری ہوسکتے ہو؟ روزِ محشر تمہارے پاس میرے خون کا کیاجواب ہوگا؟ اپنا انجام سو چو اور اپنی عاقبت پر نظر ڈالو،پھر یہ بھی سمجھو کہ میں کون اور بارگاہِ رسالت میں کس چشمِ کرم کا منظور نظرہوں، میرے والد کون ہیں اور میری والدہ کس کی لخت جگرہیں؟میں انھیں بتولِ زہرا کا نور دید ہ ہوں جن کے پل صراط پر گزرتے وقت عرش سے ندا کی جائے گی کہ اے اہل محشر! سر جھکاؤاور آنکھیں بندکروکہ حضرت خاتون جنت رضی اللہ تعالیٰ عنہاپل صراط سے ستر (70) ہزار حوروں کو رکابِ سعادت میں لے کر گزرنے والی ہیں۔ میں وہی ہوں جس کی محبت کو سرورِعالم علیہ الصلوٰۃ و السلام نے اپنی محبت فرمایاہے، میرے فضائل تمہیں خوب معلوم ہیں، میرے حق میں جو احادیث وارد ہوئی ہیں اس سے تم بے خبر نہیں ہو .لیکن اس خطبے کا جواب یہ دیا گیا کہ آپ گفتگو کو ختم کیجئے اور جنگ کے لئے کسی کو میدان میں بھیجئے لیکن امام عالی مقام اپنی حجت پوری کرنا چاہتے تھے کہ کہیں جنگ دفع کرنے کی کوئی تدبیر رہ نہ جائے ، لیکن وہ اس سے باز نہ آئے اور جو حرص کا بھوت سوار تھا اس نے انھیں اندھا کردیا تھا نیزے بازلشکر اعداء سے نکل کر رجزخوانی کرتے ہوئے میدان میں آکودے اور تکبر کے ساتھ اتراتے ہوئے گھوڑے دوڑا کر اور ہتھیار چمکا کرامام رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مبار ز کے طالب ہوئے۔حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور امام کے خاندان کے نونہال شوق جانبازی میں سرشارتھے۔ لیکن جب قریب کے گاؤں تک یہ خبر پہنچی تو محبت اھل بیت میں دوڑے آئے اور عرض کی کہ جب تک ہم میں سے ایک بھی زندہ ہے خاندان اھل بیت میں سے کوئی بھی میدان میں نہیں جائیگا انہوں نے میدان میں پہنچ کر دشمنان اہل بیت سے شجاعت کے ساتھ مقابلے اور کیے جن جن خوش نصیبوں کی قسمت میں تھا انہوں نے خاندانِ اہلِ بیت پر اپنی جانیں فداکرنے کی سعادت حاصل کی۔ اس زمرہ میں حُربن یزید ریاحی قابل ذکر ہے حر کے ساتھ اس کے بھائی اور غلام نے بھی نوبت بہ نوبت داد شجاعت دے کر اپنی جانیں اہلِ بیت رضی اللہ تعالیٰ عنہم پر قربان کیں۔اب پچاس سے زیادہ شھید ہوچکے اب صرف خاندان اھل بیت رضی اللہ عنھم باقی ہے اب تک نیاز مندوں اور عقیدت کیشوں کی معرکہ آرائیاں تھیں جنہوں نے عَلَم بردار انِ شجاعت کو خاک و خون میں لِٹا کر اپنی بہادری کے غُلْغُلے دکھائے تھے اب اسد اللہ کے شیرانِ حق کا موقع آیا اور علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خاندان کے بہادروں کے گھوڑوں نے میدانِ کر بلا کو جولانگاہ بنایا۔ان حضرات کا میدان میں آنا تھا کہ بہادروں کے دل سینوں میں لرزنے لگے اور ان کے حملوں سے شیردل بہاد ر چیخ اٹھے ابنِ سعد نے اعتراف کیا کہ اگر فریب کاریوں سے کام نہ لیاجاتا یا ان حضرات پر پانی بند نہ کیا جاتا تو اہل بیت رضی اللہ تعالیٰ عنہم کا ایک ایک نوجوان تمام لشکر کوبربا د کرڈالتا۔
حاصل اہلِ بیت رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے نونہالوں اور ناز کےپالوں نے میدان کربلا میں حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر اپنی جانیں فدا کیں اور تیر وسناں کی بارش میں حمایتِ حق سے منہ نہ موڑا، گردنیں کٹوائیں ،خون بہائے ، جانیں دیں مگر کلمۂ ناحق زبان پر نہ آنے دیا، نوبت بہ نوبت تمام شہزادے شہید ہوتے چلے گئے۔ ۔ اب حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سامنے ان کے نورِ نظرحضرت علی اکبررضی اللہ تعالیٰ عنہ حاضر ہیں، میدان کی اجازت چاہتے ہیں،آپ نے اس کو خود گھوڑے پر بٹھا کر رخصت فرمایا آپ کے میدان میں آنے سے ہر طرف شوربرپا ہوگیا، دلاوروں کے دل چھوٹ گئے، بہادروں کی ہمتیں ٹوٹ گئیں، کبھی نیزے کی ضرب تھی، کبھی تلوار کا وار تھا، شہزادۂ اہلِ بیت کا حملہ نہ تھا عذابِ الٰہی کی بلائے عظیم تھی۔آپ حملہ فرماتے رہے اور دشمن ہلاک ہوہوکر خاک وخون میں لوٹتے رہے لیکن چاروں طرف سے نیزوں کے زخموں نے تن نازنین کو چکنا چور کردیا تھا اور چمنِ فاطمہ کا گلِ رنگیں اپنے خون میں نہا گیاتھا، پیہم تیغ وسنان کی ضربیں پڑرہی تھیں اور فاطمی شہسوار پر تیر و تلوار کا مینہ برس رہاتھا، اس حالت میں آپ پشت زین سے روئے زمین پر آئے اور سروقامت نے خاکِ کربلاپر استراحت کی۔
اب وہ وقت آیا کہ جاں نثار ایک ایک کرکے رخصت ہوچکے اور حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر جانیں قربان کرگئے،اب تنہا حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں اورایک فرزند حضرت امام زین العابدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ وہ بھی بیمارو ضعیف۔ اوجود اس ضعف و ناطاقتی کے خیمہ سے باہر آئے نیزہ دست مبارک میں لیا لیکن بیماری، سفر کی کوفت، بھوک پیاس، متواتر فاقوں اور پانی کی تکلیفوں سے ضعف اس درجہ ترقی کرگیا تھا کہ کھڑے ہونے سے بدن مبارک لرزتا تھاباوجود اس کے ہمت مردانہ کایہ حال تھا کہ میدان کا عزم کردیا۔لیکن اما م رضی اللہ آپ کو روک دیا اور اور بہت سی ذمہ داریوں کا حامل کیا یعنی اھل بیت کی وطن تک رسائی خیال وغیرہ ۔۔اورخود جنگ کے لئے تیار ہوئے، قبائے مصری پہنی اور عمامۂ رسولِ خدا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سر پر باندھا، سید الشہدا امیر حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سپر پشت پر رکھی،حضرت حیدر کَرَّار کی ذوالفقارِ آبدار حمائل کی حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے اہل بیت کو تلقین صبر فرمائی۔ رضائے الٰہی عزوجل پر صابر و شاکر رہنے کی ہدایت کی اور سب کو سپردِ خدا عزوجل کرکے میدان کی طرف رخ کیااور میدان میں پہنچے اور آپ نے خطبہارشاد فرمایا لیکن جب حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اطمینان فرمایاکہ سیاہ دلانِ بدباطن کے لئے کوئی عذر باقی نہ رہا اور وہ کسی طرح خونِ ناحق و ظلمِ بے نہایت سے باز آنے والے نہیں تو امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ تم جو ارادہ رکھتے ہو پورا کرو اور جس کو میرے مقابلہ کے لئے بھیجنا چاہتے ہو بھیجو۔ مشہور بہادر اور یگانہ نبرد آزماجن کو سخت وقت کیلئے محفوظ رکھا گیا تھا میدان میں بھیجے گئے۔ ایک بے حیا ابنِ زہراکے مقابل تلوار چمکاتا آتا ہے، امامِ تشنہ کام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوآبِ تیغ دکھاتاہے، پیشوائے دین کے سامنے اپنی بہادری کی ڈینگیں مارتاہے، غرورو قوت میں سرشار ہے، کثرتِ لشکر اور تنہائی امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر نازاں ہے، آتے ہی حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف تلوار کھینچتا ہے، ابھی ہاتھ اٹھاہی تھا کہ امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ضرب فرمائی، سر کٹ کر دو ر جا پڑا اور غرورِ شجاعت خاک میں مل گیا۔
حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مقابل آتے رہے مگر جو سامنے آیا ایک ہی ہاتھ میں اس کا قصہ تمام فرمایا۔ کسی کے سر پر تلوار ماری تو زین تک کاٹ ڈالی، کسی کے حمائلی ہاتھ مارا تو قلمی تراش دیا، خودو مِغْفَر کاٹ ڈالے، جوشن و آئینے قطع کردئیے، کسی کو نیزہ پر اٹھایا اور زمین پرپٹک دیا، کسی کے سینے میں نیزہ مارا اور پار نکال دیا۔ لشکر اعداء میں شور برپا ہوگیا کہ جنگ کا یہ انداز رہا تو حیدر کا شیر کوفہ کے زن و اطفال کو بیوہ ویتیم بناکر چھوڑ ے گااب موقع مت دو اور چاروں طرف سے گھیر کر یکبار گی حملہ کرو۔ اور یہی صورت اختیار کی اور ماہِ چرخِ حقانیت پر جوروجفا کی تاریک گھٹا چھاگئی اور ہزاروں جوان دوڑ پڑے اور حضرت امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو گھیر لیا اور تلوار برسانی شروع کی جب خوب زخمی ہوچکیں تو نیزوں کے حملوں سے تن نازنین کومجروح کیاگیا۔ نورانی جسم زخموں سے چکنا چور اور لہولہان ہورہاہے،بے شرم کوفیوں نے سنگدلی سے محترم مہمان کے ساتھ یہ سلوک کیا۔ ایک تیر پیشانی اقدس پر لگایہ پیشانی مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی بوسہ گاہ تھی، یہ سیمائے نور حبیب خداعزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے آرزومندانِ جمال کا قرارِ دل ہے۔ بے ادبانِ کوفہ نے اس پیشانیٔ مُصَفّا اور اس جبینِ پُر ضِیا کو تیر سے گھائل کیا، حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو چکرآگیا اور گھوڑے سے نیچے آئے اب نامردانِ سیاہ باطن نے نیزوں پر رکھ لیا، نورانی پیکر خون میں نہا گیا اور آپ شہید ہوگئے ۔

اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔
[/urdu]

0 Responses on The Martyrdom of Imam Hussain R.A"

Leave a Message

Your email address will not be published. Required fields are marked *

online support software